پہلا صفحہ
زندگی نامہ
تالیفات
توضيح المسائل
پيغام
فرزند ارجمند کي تالیفات
تصاوير
هم سے رابطه كيجئے
مرتبط سائٹس
مناسبات
مقالات
 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حدیث غدیر

مقدمہ:

غدیر کا نام تو ہم سبھی نے  سنا ہے، یہ سرزمین مکہ اورمدینہ کے درمیان، مکہ شہر سے تقریبا دوسو کلومیٹر کے فاصلے پر جحفہ کے پاس واقع ہے ۔یہ ایک چوراہا ہے ۔مختلف سرزمینوں سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام یہاں پہونچ کرایک دوسرے سے جدا  ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے شمالی سمت کا راستہ مدینہ کی طرف ،جنبوبی سمت کا راستہ یمن کی طرف ،مشرقی سمت کا راستہ عراق کی طرف اور مغربی سمت کا راستہ مصر کی طرف جاتا ہے ۔

آج کل یہ سرزمین بھلے ہی متروک ہو چکی ہو مگر ایک دن یہی سرزمین تاریخ اسلام کے ایک اہم واقعہ کی گواہ تھی اوریہ واقعہ اٹھارہ ذی الحجہ   ۱۰   ئھ کاہے جس دن حضرت علی علیہ السلام رسول اکرم  کے جانشین کے منصب پر فائز ہوئے ۔

 مگر افسوس ہے کہ  ماضی میں تو خلفاء ،  تاریخ کے اس عظیم واقعہ کو مٹانے کی کوششیں کرتے رہے  ور آج کچھ متعصب افراد اس کو مٹانے یا کم رنگ کرنے کی فکر میں لگے ہیں۔لیکن یہ واقعہ تاریخ ،حدیث اور عربی ادب میں اتنا رچ بس گیا ہے کہ اس کو چھپا  نا اور مٹا نا  ناممکن ہے۔

 اس کتابچہ میں غدیر کے بارے میں ایسی ایسی سندیں اور اور حوالے موجود  ہیں کہ آپ ان کو دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔ جس واقعہ  کے لئے اتنی زیادہ دلیلیں اور سندین موجود ہوں وہ کسی طرح بھی عدم توجہ یا پردہ پوشی کا شکار نہیں ہوسکتا ۔

امید ہے کہ یہ منطقی تحلیل اور تمام سندیں جو اہل سنت کی کتابوں سے لی گئی ہیں مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کا ذریعہ بنیں گی اور ماضی میں لو گ جن حقائق سے سادگی کے ساتھ گذر گئے ہیں وہ اس دور میں سب کی توجہ کا مرکز بنیں گے خاص طور پر جوان نسل کی ۔

حدیث غدیر:

حدیث غدیر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بلا فصل ولایت و خلافت کے لئے ایک روشن دلیل ہے  اور محققین اس حدیث کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جو لوگ آپ کی ولایت سے پس و پیش کرتے ہیںوہ کبھی تو اس حدیث کی سندکو زیر سوال لاتے ہیں اور کبھی اس حدیث کی سند کو قبول کرتے ہوے ٴ اس کی دلالت میں تردید کرتے ہیں ۔

 لہذا  ضروری ہے کہ اس حدیث کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے سند اور دلالت کے بارے میں معتبر حوالوں کے ذریعہ بات کی جائے ۔

غدیر خم کا پیش خیمہ :

سن   ۱۰ ھ. کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجة الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کے اعمال سیکھے۔ اسی اثناء رسول اکرم  نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنے کا ارادہ کیا اور قافلہ کوچلنے کا حکم دیا ۔جب یہ قافلہ جحفہ[1] سے تین میل کے فاصلے پر رابغ[2]  نامی سرزمین پر پہونچا تو غدیر خم کے نقطہ پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیا <یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس>[3]اے رسول! اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے  اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا، توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا ،اللہ آپ کو لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔

آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ایک ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے  اور دشمنوںکی مایوسی کا سبب بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصیات و جانشینی کے منصب پر معین کیا جائے ؟

لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ،جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ  پیچھے پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ  آکر قافلہ سے مل گئے ، ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی ۔حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ

 پیروں کے نیچے دبائے  ہوئے تھے۔ پیغمبر کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا تھا ،پیغمبر اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہوئے اور بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔

غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ:

حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور اپنے برے کاموں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے ۔اور جس نے بھی گمراہی کی طرف ہدایت کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔

ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے کہ میں دعوت حق کو لبیک کہوں اور تمھارے درمیان سے چلا جاؤں تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔

اس کے بعد فرمایا کہ : میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے  ؟کیا میں نے تم سے متعلق پنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے  ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت کوششیں کیںاوراپنی ذمہ داری کو پوراکیا اللہ آپ کو اس کا اچھا اجر دے ۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے ؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔،،

اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو ۔

اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے کیا مراد ہے؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:  ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے  اور دوسرا تمھارے ہاتھوںمیں ،اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ﷼ ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔

ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا ،اور دونوںکے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔

اس وقت حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوںکی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی،علی﷼ سے سب لوگوں کو  متعرف کرایا ۔

اس کے بعد فرمایا: ” مومنین پر خود ان سے زیادہ  سزوار کون ہے ؟“

سب نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوںاور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔“

ہاں اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “

جس جس ک ا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ،[4] اے اللہ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر جدھرعلی مڑیں[5]

اوپر لکھے خطبہ[6] کو اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی دلیلیںموجو د ہیں (ہم جلد ہی اس قول کی وضاحت کریںگے)

حدیث غدیر کی جاودانی:

اللہ کا یہ حکیمانہ اردہ ہے کہ غدیر کا تاریخی واقعہ ایک زندہ حقیقت کی صورت میں ہر زمانہ میں باقی رہے اورلوگوںکے دلوں کو اپنی طرف جذب کرتا رہے ،اسلامی قلمکار ہر زمانے میں تفسیر ،حدیث،کلام اور تاریخ کی کتابوںمیں اسکے بارے میں لکھتے رہیں اور مذہبی خطیب اس کو واعظ و نصیحت کی مجالس میں حضرت علی علیہ السلام کے  ناقابل انکار فضائل کی صورت میں بیان کر تے رہیں۔

اور فقط خطیب ہی نہیں بلکہ شعراء حضرات بھی اپنے ادبی ذوق ،فکر اور اخلاص کے ذریعہ اس واقعہ کو چار چاند لگائیں اور مختلف زبانوں میں مختلف طریقوں سے بہترین اشعار کہہ کر اپنی یادگار  قائم کریں (مرحوم علامہ امینیۺ نے مختلف صدیوں میں غدیر کے بارے میں کہے گئے اہم اشعار کو شاعر کے زندگی کے حالات کے ساتھ معروفترین منابع اسلامی سے نقل کرکے اپنی کتاب الغدیر میں جو گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے بیان کیا ہے ۔)

دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ایسے تاریخی واقعات بہت کم ہیں جو غدیر کی طرح محدثوں ،مفسروں،متکلموں،فلسفیوں،خطیبوں، شاعروں،مؤرخوں اور سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوں۔

اس حدیث کے جاودانی ہونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں[7]   لہٰذا جب تک قرآن باقی رہے گا یہ  تاریخی واقعہ بھی زندہ رہے گا ۔

 تاریخ کے مطالعہ سے  ایک بڑی دلچسپ بات سامنے آتی ہے  اور وہ یہ کہ اٹھارویں ذی الحجة الحرام مسلمانوں کے درمیان روز عید غدیر کے نام سے مشہور تھی یہاں تک کہ ابن خلکان ، المستعلی بن المستنصرکے بارے میں کہتا ہے کہ ۴۸۷  ئھ میں عید غدیر خم کے دن جو کہ اٹھارہ ذی الحجة الحرام ہے لوگوں نے اس کی بیعت کی[8]  اور المستنصر باللہ کے بارے میںلکھتا ہے کہ ۴۸۷  ئھ میں جب ذی الحجہ ماہ کی آخری بارہ راتیں باقی رہ گئیںتو وہ اس دنیا سے گیا اور جس رات میں وہ دنیا سے گیا ماہ ذی الحجہ کی اٹھارویں شب تھی جو کہ شب عید غدیر ہے۔ [9]

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب  ا لآثار الباقیہ میں عید غدیر کو ان عیدوں میں شما رکیا ہے جن کا تمام مسلمان اہتمام کرتے تھے  اور خوشیاں مناتے تھے  ۔[10]

صرف ابن خلقان اور ابوریحان بیرونی نے ہی اس دن کو عید کا دن نہیں کہا ہے بلکہ اہل سنت کے مشہور ومعروف  عالم ثعلبی نے بھی شب غدیر کو امت مسلمہ کے درمیان مشہور شبوں میں شمار کیا ہے ۔[11]

اس اسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہی پڑگئی تھی کیونکہ  آپ نے اس دن تمام مہاجر ،انصار اور اپنی ازواج کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاؤاور امامت و ولایت کے سلسلہ میں ان کو مبارکباد دو ۔

زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ : ابوبکر ،عمر،عثمان،طلحہ وزبیر مہاجرین میں سے وہ  افراد تھے جنھوں نے  سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھاپر بیعت کی اور مبارکباد  پیش کی۔بیعت اور مبارکبادی کیا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا [12]

حدیث غدیر کوایک سو دس راویوں نے بیان کیا ہے :

اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔[13]

البتہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کے اتنے بڑے گروہ میں سے صرف انھیں اصحاب نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انھیں ایک سو دس افراد کا ذکر ملتا ہے ۔

دوسر صدی میں کہ جس کو تابعان کا دور کہا گیا ہے ان میں سے ۸۹  افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

بعد کی صدیوںمیں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے  اور علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند اور صحت کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔

اس گروہ نے نہ صرف یہ کہ اس حدیث کو بیان کیاا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑپ مورخ طبری نے ” الولایت فی طرقِ حدیث الغدیر“ نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو ۷۵ طریقوں سے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ۔

ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ولایت میں اس حدیث کو ۱۰۵  افرادسے نقل کیا ہے ۔

ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو کہ جمعانی کے  نام سے مشہور ہے  ا نھوں نے اس حدیث کو ۲۵ طریقوں سے بیان کیا ہے ۔

حدیث غدیر اور  مشہورعلما ء اہل سنت :

احمد بن حنبل شیبانی

ابن حجر عسقلانی

جزری شافعی

ابوسعید سجستانی

امیر محمد یمنی

نسائی

ابو الاعلاء ہمدانی

 اور ابو العرفان حبان

 نے اس حدیث کو بہت سی سندوں[14] کے ساتھ نقل کیا ہے ۔

شیعہ علماء نے بھی اہل سنت کی مشہور کتابوں کو منبع وماخذ بنا کر اس تاریخی واقعہ کے بارے میں بڑی اہم کتابیں لکھیں ہیں۔ ان کتابوں میں جامع ترین کتاب ” الغدیر“ ہے جو عالم اسلام کے مشہورمؤلف علامہ ،مجاہد، مرحوم آیة اللہ امینیۺ کے قلم کا بہترین شاہکار ہے  (اس کتابچہ کو لکھنے کے لئے اس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیاگیا ہے )

بہرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپناجانشین بنانے کے بعد فرمایا:” اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے <الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً>[15]آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کوبھی تمام کیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ۔

اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کہی اور فرمایا :” اللہ کاشکرادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئین اور نعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و جانشینی سے خوشنود ہوا ۔

اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایاکہ:” جاؤ خیمے میں جاکر بیٹھو، تاکہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں اور سردار آپ کی بیعت کر کے مبارکباد پیش کریں۔

سب سے پہلے شیخین (ابوبکر و عمر) نے علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا ۔

حسان بن ثابت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایک قصیدہ کہہ کر اس کوپڑھا ،یہاں پر اس قصیدے کے صرف دواہم اشعا ر بیان کررہے ہیں :

فقال لہ قم یا علی فاننی

فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً

فمن کنت مولاہ فہٰذا ولیہ

فکونو لہ اتباع صدق موالیا

یعنی علی علیہ السلام سے فرمایا :” اٹھو میں نے آپ کو اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت و راہنمائی کے لئے منتخب کرلیا ۔“

جس جس کا میںمولا ہوں اس اس کے علی ﷼ مولا ہیں۔

 تم ،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو ،بس ان کی پیروی کرو۔[16]

یہ حدیث علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پرفضیلت اور برتری کے لئے سب سے بڑی دلیل ہے ۔

یہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام نے مجلس شورائے خلافت میں  (جو کہ دوسرے خلیفہ کے مرنے کے بعد منعقد ہوئی)[17] اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں اور اپنی خلافت کے دوران بھی اس پر احتجاج کیا ۔[18]

اس کے علاوہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جیسی عظیم شخصیتوں نے حضرت علی علیہ السلام کی والا مقامی سے انکار کرنے والوںکے سامنے اسی حدیث سے استدلال کیا ۔[19]

مولیٰ سے کیا مراد ہے ؟

یہاں پر سب سے اہم مسئلہ مولیٰ کے معنی کی تفسیر ہے جو کہ وضاحت میں عدم توجہ اور لاپرواہی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے بارے میں جو کچھ بیان کیاگیا ہے اس سے اس حدیث کی سندکے قطعی ہونے میں کوئی شک و  تردید باقی نہیںرہ جاتی ہے ،لہٰذا بہانہ تراشنے والے  افراد  اس حدیث کے معنی و مفہوم میں شک و  تردید پیدا کرنے میں لگ گئے خاص طور پر لفظ مولیٰ کے معنی میں ،مگر وہ اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکے ۔

صراحت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ مولیٰ اس حدیث میں بلکہ اکثر مقامات پر ایک سے زیادہ معنی نہیں دیتا اور وہ ”اولویت اور شائستگی “ہے دوسرے الفاظ میں مولیٰ کے معنی ” سرپرستی “ ہے۔ قرآن میں بہت سی آیات میں لفظ مولیٰ سرپرستی اور اولیٰ کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے ۔

قرآن کریم میں لفظ مولیٰ ۱۸ آیات میں استعمال ہوا ہے جن میں سے دس مقامات پر یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ظاہر ہے کہ اللہ کی مولائیت اس کی سرپرستی اور اولویت کے معنی میں ہے ۔لفظ مولیٰ بہت کم مقامات پر دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے  اس بنیادپر مولیٰ کے معنی  میںدرجہٴ اول میں اولیٰ ہونے میںکوئی شک و  تردید نہیں کرنی چاہئے ،حدیث غدیر میںبھی لفظ مولا اولویت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے  اس کے علاوہ اس حدیث کے ساتھ بہت سے ایسے قرائن و شواہد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہاں پر مولا سے مراد اولویت اور سرپرستی ہی ہے ۔

 اس دعوے کی دلیلیں:

فرض کروکہ لفظ مولیٰ کے لغت میں بہت سے معنی ہیں لیکن تاریخ کے اس عظیم واقعہ وحدیث غدیر کے بارے میں بہت سے ایسے قرائن و شواہد موجود ہیں جو ہر طرح کے شک و شبہات کو دور کرکے حجت کو تمام کرتے ہیں ۔

 پہلی دلیل:

جیسے کہ ہم نے کہا ہے کہ غدیر کے  تاریخی واقعہ کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاعر حسان بن ثابت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر ان کے مضمون کو اشعار کی شکل میں ڈھالا ۔اس فصیح و بلیغ وارعربی زبان کے رموز سے آشنا شخص نے لفظ مولا کی جگہ لفظ امام وہادی کو استعمال کیا اور کہا:

فقال لہ قم یا علی فاننی

فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً[20]

یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : اے علی﷼ ! اٹھو کہ میں نے تم کو اپنے بعد امام وہادی کی شکل میں منتخب کرلیا ہے ۔

جیسا کہ ظاہر ہے شاعر نے لفظ مولا کو جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام میں استعمال کیاتھا امام، پیشوا،ہدای اور امت کی رہبر کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں استعمال نہیں کیا ہے ۔ اس صورت میں کہ یہ شاعر ،عرب کے فصیح و اہل لغت افرادمیں شمار ہوتا ہے ۔اورصرف عرب کے اس عظیم شاعر حسان نے ہی اس لفظ مولا کو امامت کے معنی میں استعمال نہیں کیاہے بلکہ اس کے بعد آنے والے تمام اسلامی شعراء نے جو عرب کے مشہور شعراء ،ادباء  اور عربی زبان کے استاد شمار ہوتے تھے  انھوں نے بھی اس لفظ مولا سے وہی معنی مراد لئے ہیں جو حسان نے مراد لئے تھے یعنی امامت ۔

دوسری دلیل:

حضرت امیر علیہ السلام نے جو اشعار معاویہ کو لکھے ان میں حدیث غدیر کے بارے میں یہ فرمایاکہ :

واوجب لی ولایتہ علیکم                 رسول اللہ یوم غدیر خم [21]

یعنی اللہ کے پیغمبر نے غدیرکے دن میری ولایت کو تمھارے اوپر واجب قراردیا ۔

امام سے بہتر کون شخص ہے جو ہمارے لئے اس حدیث کی تفسیر کرسکے ؟اوربتائے کہ غدیر کے دن اللہ کے پیغمبر نے ولایت کو کس معنی میں استعمال کیاہے ؟کیا یہ تفسیر یہ نہیں بتا رہی ہے کہ واقعہ غدیر میں موجود تمام افراد نے لفظ مولا سے امامت کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب نہیں سمجھا تھا ؟

تیسری دلیل:

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ ․․․“ کہنے سے پہلے یہ سوال کیا کہ ”الست اولیٰ بکم من انفسکم؟“ کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ہوں ؟پیغمبر کے اس سوال میں لفظ اولیٰ بنفس کا استعمال ہوا ہے۔ پہلے سب لوگوںسے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اس کے بعد بلافصل ارشاد فرمایا:” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ “ یعنی جس جس کا میںمولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں، ان دو جملوں کو آپس میںملانے سے کیا ہدف ہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی  اورہدف ہو سکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے ،وہی علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی علیہ السلام امام ،نتیجہ میں حدیث غدیر کے یہ معنی ہو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویت کی نسبت ہے اس اس سے علی علیہ السلام کو بھی اولویت کی نسبت ہے ۔[22]

اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے علاوہ اور کوئی ہدف ہوتا تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرارلینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی،یہ انصاف سے کتنی گری  ہوئی  بات ہے کہ انسا ن  ان تمام قرائن کی روشنی میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ا س پیغام کو نظراندازکرتے ہوئے  آنکھیں بند کرکے گذرجائے۔

چوتھی دلیل:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام کے آغاز میں لوگوں سے اسلام کے تین اہم اصول کا اقرارلیا اور فرمایا ”الست تشہدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمد ا عبدہ ورسو لہ وان الجنة حق والنار حق ؟

یعنی کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبود نہیں ہے  اور محمد اس کے عبد ورسول ہیں اور جنت و دوزخ حق ہیں؟ان سب کا اقرارکرانے سے کیا ہدف تھا ؟کیااس کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف تھا کہ وہ علی علیہ السلام کے لئے جس مقام و منزلت کو ثابت کرنا چاہتے تھے  اس کے لئے لوگوں کے ذہن کو آمادہ کریں تاکہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں ک ولایت و خلافت کا اقرار دین کے ان تین اصولوں کی مانندہے جن کا سب اقرار کرتے ہیں ؟اگرمولاسے دوست یامددگار مراد لیں تو ان جملوں کا آپسی ربط ختم ہو جائے گا اور کلام کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی کیا ایسا نہیں ہے ؟

پانچویں دلیل:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ کے شروع میں اپنی رحلت کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ :” انی اوشک ان ادعیٰ فاجیب“یعنی قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کہوں[23] یہ جملہ اس بات کی حکایت کررہاہے کہ پیغمبر یہ چاہتے ہیں کہ اپنے بعد کے لئے کوئی انتظام کریں اور اپنی رحلت کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پرکریںاور جس سے یہ خلا پر ہو سکتا ہے وہ ایسے لائق وعالم جانشین کا تعین ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعدتمام امور کی باگڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھال لے ۔اس کے علاوہ کوئی دوسر ی صورت نظر نہیں آتی ۔

جب بھی ہم ولایت کی تفسیر خلافت کے علاوہ کسی دوسری چیز سے کریں گے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملوںمیں پایا جانے والا منطقی رابطہ ٹوٹ جائے گا جبکہ وہ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والے ہیں مسئلہ ولایت کے لئے اس سے روشن تر اور کیا قرینہ ہو سکتا ہے ۔

چھٹی دلیل:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” من کنت مولاہ ․․․“ جملے کے بعد فرمایا کہ :” اللہ اکبر علیٰ اکمال الدین واتمام النعمت ورضی ربی برسالتی والولایت لعلی من بعدی“ اگر مولا سے دوستی یا مسلمانوں کی مدد مراد ہے تو علی علیہ السلام کی دوستی  ومدد سے دین کس طرح کامل ہوگیا اور اس کی نعمتیں کس طرح پوری ہوگئیں ؟

 سب سے روشن  بات یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ میری رسالت اور میرے بعد علی علیہ السلام کی ولایت سے راضی ہو گیا[24] کیایہ سب خلافت کے معنی پر دلیل نہیں ہے؟

ساتویں دلیل:

اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ شیخین(ابوبکر و عمر)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا شخین وہ پہلے افراد تھے جنھوںنے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی ”ہنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولیٰ کل مومن ومؤمنة“[25]یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح شام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے ۔

علی علیہ السلام نے اس دن ایسا کونسا مقام حاصل کیا تھا  جس کے نتیجہ میں اس مبارکبادی کے مستحق قرارپائے ؟کیامقام خلافت ،زعامت اور امت کی رہبری ،کہ جس کا اس دن تک رسمی طور پر اعلان نہیں ہوا تھا اس مبارکبادی کی وجہ نہیں تھی؟محبت و دوستی تو کوئی نئی بات نہیں تھی ۔

کیا قرآن نے تمام اہل ایمان افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نہیں کہا ہے؟جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے <انما المومنون اخوة>[26] مومنین آپس میںایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔کیا قرآن نے دوسری آیتوں میں مومنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں متعرف نہیں کرا  یا ہے؟ اور علی علیہ السلام بھی اسی مومن سماج کے ایک فرد تھے لہٰذا کیا ضرورت تھی کہ ان کی دوستی کا اعلان کیا جائے؟اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میں دوستی ہی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان انتظامات کی ضرورت نہیں تھی ،یہ کام مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا ۔یقینا کو ئی بہت اہم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی کیونکہ اس طرح کے انتظامات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نہ کبھی پہلے دیکھے گئے اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد نظر آئے ۔

اب آپ فیصلہ کریں:

اگر ان روشن قرائن کی موجودگی میں بھی کوئی شک کرے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد امامت و خلافت نہیں تھا تو کیا یہ تعجب والی بات نہیں ہے ؟وہ افراد جو اس میں شک کرتے ہیں اپنے آپ کو کس طرح مطمئن کریںگے اور روز محشر اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟یقینا اگر تمام مسلمان تعصب کو چھوڑ کر از سر نو حدیث غدیر پر تحقیق کریں تو دل خواہ نتیجوں پر پہونچیں گے  اور یہ کام مسلمانوںکے مختلف فرقوں میں آپسی اتحادکی مضبوطی کا سبب بنے گا اور اس طرح اسلامی سماج ایک نئی شکل میں ڈھل جائے گا ۔

تین پر معنی حدیثیں:

اس مقالہ کے آخر میں تین پر معنی حدیثوں پر بھی توجہ فرمائیں۔

الف: حق کس کے ساتھ ہے۔

زجوات پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام سلمیٰ اور عائشہ کہتی ہیں کہ ہم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا ”علی مع الحق و الحق مع علی یفترقا حتی یردا علی الحوض“

علی ﷼ حق کے ساتھ ہیں اور حق علی ﷼ کے ساتھ ہے ۔اور  یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہیں ہوسکتے جب تک حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہونچ جائیں۔

یہ حدیث اہل سنت کی بہت سی مشہور کتابوں میںموجودہے۔علامہ امینیۺ نے ان کتابوں کا ذکر الغدیر کی تیسری جلد میں کیا ہے۔[27]

اہل سنت کے مشہور مفسر فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ حمد کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ:” حضرت علی علیہ السلام بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھتے تھے ۔اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ جو دین میں علی علیہ السلام کی اقتدا کرتا ہے وہ ہدایت یافتہ ہے ۔اور اس کی دلیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا:” اللہم ادرلحق مع علی حیث دار“  اے اللہ حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑےں ۔[28]

یہ حدیث قابل توجہ ہے  جو یہ کہہ رہی ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات حق کا مرکز ہے ۔

ب:پیمان برا دری:

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے  اصحاب کے  ایک مشہور گروہ نے اس حدیث کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے :” آخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین اصحاب فاخی بین ابی بکر و عمر، وفالن فلان ، فجاء علی رضی اللہ عنہ فقال آخیت بین اصحابک و لم تواخ بینی وبین احد؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انت اخی فی الدنیا والآخرة “

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کے درمیان صیغہ اخوت جاری کیا ،ابوبکر کو عمر کا بھائی بنایا اور اسی طرح سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔اسی وقت حضرت علی علیہ السلام حضرت کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض کیا کہ آپ نے سب کے درمیان برادری کا رشتہ قائم کردیا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” آپ دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہیں“

اسی سے ملتا جلتا مضمون اہل سنت کی کتابوں میں ۴۹ جگہوں پر ذکر ہوا ہے۔[29]

کیا حضرت علی علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان برادری کا یہ رشتہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ امت میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں؟ کیا افضل کے ہوتے ہوئے  مفضول کے پاس جانا چاہئے؟

ج:  نجات کا واحد ذریعہ :

ابوذر نے خانہ کعبہ کے در کو پکڑ کر کہا کہ جو مجھے جانتا ہے  وہ تو جانتا ہی ہے  اور جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں ابوذر ہوں اور میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا:

” مثل اہلبیتی فیکم مثل سفینة نوح، من رکبہا نجیٰ ومن تخلف عنہا غرق“

تمھارے درمیان میرے اہلبیت﷼ کی مثال کشتی نوح جیسی ہے جو اس پر سوار ہو ا اس نے  نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا۔[30]

جس دن توفان نوح نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا تھا اس دن نوح علیہ السلام کی کشتی کے علاوہ نجات کا کوئی دوسرا ذریعہ موجودنہیں تھا ۔یہاںتک کہ وہ اونچا پہاڑبھی جس کی چوٹی پر نوح علیہ السلام کا بیٹا بیٹھا ہواتھا نجات نہ دلاسکا۔

کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ان کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے دامن سے وابستہ ہونے کے  علاوہ نجات کا کوئی دوسرا راستہ ہے؟


[1] یہ جگہ احرام کے میقات کی ہے اور ماضی میں یہاں سے عراق،مصر اور مدینہ کے راستے جدا ہو جاتے تھے۔

[2] رابغ اب بھی مکہ اور مدینہ کے بیچ میں ہے۔

[3] سورہ مائدہ آیہ/۶۷

[4] پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطمینان کے لئے اس جملے کو تین بار کہا تاکہ بعد میں کوئی مغالطہ نہ ہو۔

[5] یہ پوری حدیث غدیر یافقط اس کا پہلا حصہ یا فقط دوسرا حصہ ان مسندوں میں آیا ہے ۔ (الف)مسند احمد ابن حنبل ص/۲۵۶(ب) تاریخ دمشق  ج/۴۲ ص/۲۰۷، ۲۰۸،۴۴۸ (ج)خصائص نسائی ص/۱۸۱ (د)المجمل کبیر ج/۱۷ ص/۳۹ (ہ) سنن ترمذی ج/ ۵ ص/ ۶۳۳(و) المستدرک الصحیحین ج/ ۱۳ ۲ص/ ۱۳۵ (ز) المعجم الاوسط ج/ ۶ ص/ ۹۵ (ح) مسند ابی یعلی ج/ ۱ ص /۲۸۰ ،المحاسن والمساوی ص/ ۴۱(ط)مناقب خوارزمی ص/ ۱۰۴ ،اور دیگر کتب۔

[6] اس خطبہ کو اہل سنت کے بہت سے علماء نے اپنی کتابوںمیں ذکرکیا ہے ۔جیسے (الف) مسند احمد ج/ ۱ ، ص/ ۸۴، ۸۸، ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۵۲، ۳۳۲، ۲۸۱، ۳۳۱ ،اور ۳۷۰(ب) سنن ابن ماجہ ج/ ۱ ،ص/۵۵، ۵۸ (ج) المستدرک الصحیحین نیشاپوری ج/ ۳ ص/ ۱۱۸، ۶۱۳(ج) سنن ترمزی ج/ ۵ ص/۶۳۳(د) فتح الباری ج/ ۷۹ ص/ ۷۴ (ہ) تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۸ ص/ ۲۹۰ (و) تاریخ خلفاء وسیوطی/ ۱۱۴،اور دیگر کتب۔

[7] سورہ مائدہ آیہ/۳، ۶۷

[8] وفایة ا  لآیان  ۶۰/۱

[9] وفایة الآیان ج/۲ ص/ ۲۲۳

[10] ترجمہ آثارالبقایہ ص/ ۳۹۵،الغدیر/۱ ،ص/۲۶۷

[11] ثمار القبول اعیان/ ۱۱

[12] عمر بن خطاب کی مبارک بادی کا واقعہ اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں ذکر ہوا ہے ۔ ان میں سے خاص خاص یہ ہیں (الف) مسند ابن حنبل ج/ ۶ ،ص/۱۰۴ (ب)لبدایہ ونہایہ ج/ ۵ ص/ ۲۰۹ (ج)الفصول المہمہ ابن صباغ ص/ ۴۰ (د)فرائد السمطین، ج/ ۱، / ۷۱، اسی طرح ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ و زبیر کی مبارکبادی کا ماجرا بھی دیگر بہت سی کتابوں میں بیان ہوا ہے جیسے مناقب علی بن ابی طالب ،تالیف :احمدبن محمد طبری ،اغدیر ج/ ۱ ص/ ۲۷۰

[13] اس اہم سند کا ذکر دوسری جگہ پر کریں گے ۔

[14] سندوں کا یہ مجموعہ الغدیر کی پہلی جلد میں موجود ہے جو اہل سنت کی مشہور کتابوں سے جمع کیا گیا ہے ۔

[15] سورہٴ مائدہ آیہ/۳

[16] حسان کے اشعار بہت سی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں :مناقب خوارزمی ،ص/ ۱۳۵،مقتل الحسین خوارزمی ،ج/ ۱ ،ص/ ۴۷ ،فرائد السمطین ج/۱ ،ص/ ۷۳ و ۷۴،النور المشتعل ،ص/ ۵۶ ،المناقب کوثر ج/ ۱ ،ص/ ۱۱۸ و ۳۶۲

[17] یہ احتجاج جس کو اصطلاح میں” مناشدہ “کہا جاتا ہے حسب ذیل کتابوں میں بیان ہوا ہے : مناقب اخطب خوارزمی حنفی ص/۲۱۷ ،فرائد السمطین حموینی باب/ ۵۸ ،الدر النظیم ابن حاتم شامی ،وصواعق المحرقہ ابن حجر عسقلانی ص/ ۷۵ ، امالی بن عقدہ ص/ ۷ و ۲۱۲، شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج/ ۲ ص/ ۶۱، الاستیعاب ابن عبد البر ج/ ۳ ،ص/ ۳۵ ،تفسیر طبری ج/ ۳ص/۴۱۸،سورہ مائدہ کی ۵۵ آیہ کے تحت

[18] (۱۸) فرائد السمطین سمط اول باب /۵۸ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج/ ۱ ص/ ۳۶۲ ،اسد الغابہ ج/ ۳ ۲ص/ ۳۰۷ وج/ ۵ ص/ ۲۰۵،الاصابہ ابن حجر عسقلانی ج/ ۲ ص/ ۴۰۸ و ج/ ۴ ص/ ۸۰ ،مسند احمد ج/ ۱ ص/ ۸۴ و ۸۸،البدایہ والنہایہ ابن کثیر شامی ج/ ۵ ص/ ۲۱۰ و ج/ ۷ ص /۳۴۸ ، مجمع الزوائد ہیتمی ج/ ۹ ص/ ۱۰۶ ، ذخائر العقبیٰ ص/ ۶۷ ،(الغدیر ج/ ۱ ص/ ۱۶۳ و ۱۶۴)

[19] اسنی المطالب شمس الدین شافعی طبق نقل سخاوی فی الضوء اللامع ج/ ۹ ص/ ۲۵۶،البد رالطالع شوکانی ج/ ۲ ص/ ۲۹۷، شرح نہج البلاغہ اب ابی الحدید ج/ ۲ ص/ ۲۷۳ ،مناقب علامہ حنفی ص/ ۱۳۰ ،بلاغات النساء ص/ ۷۲ ،العقد الفرید ج/ ۱ ص/ ۱۶۲، صبح الاعشیٰ ج/ ۱ ص/ ۲۶۹ ،مروج الذہب ابن مسعود شافعی ج/ ۲ ص/ ۴۹ ، ینابیع المودة ص/ ۴۸۶

[20] ان اشعار کا حوالہ پہلے دیا جا چکا ہے

[21] مرحوم علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی دوسری جلد میں صفحہ نمبر ۲۵ سے ۳۰ پر اس شعر کو دوسرے اشعار کے ساتھ ۱۱/شیعہ علماء اور ۲۶ / سنی علماء کے حوالہ سے نقل کیا ہے

[22] ” الست اولیٰ بکم من انفسکم“ اس جملہ کو علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب ا  لغدیر کی پہلی جلد میں صفحہ نمبر ۳۷۱ / پر عالم اسلام کے ۶۴ / محدثین ومورخین سے نقل کیا ہے ۔

[23] الغدیر ج/ ۱ ،ص/ ۲۶ ، ۲۷ ، ۳۰ ،۳۲، ۳۳۳،۳۴، ۳۶،۴۷اور ۲۷۶ پر اس مطلب کو اہل سنت کی کتابوں سے نقل کیا ہے جیسے صحیح ترمذی ج/ ۲ ص/ ۲۹۸، الفصول المہمہ ابن صباغ ص/ ۲۵ ،المناقب الثلاثہ حافظ ابن فتوح / ۱۹ ،البدایہ والنہایہ ابن کثیر ج/ ۵ ص/ ۲۰۹و ج/ ۷ ص/ ۳۴۸،الصواعق المحرقہ ص/ ۲۵ ،مجمع الزوائد ہیتمی ج/ ۹ ص/ ۱۶۵

[24] مرحوم علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب ا لغدیر کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ۴۳، ۱۶۵، ۲۳۱، ۲۳۲، ۲۳۵، پر حدیث کے اس حصہ کا حوالہ ابن جریر طبری کی کتاب الولایة ص/ ۳۱۰، تفسیر ابن کثیر ج/ ۲ ص/ ۱۴ ،تفسیر الدرالمنثور ج/ ۲ ص/ ۲۵۹،الاتقان ج/ ۱ ص/ ۳۱ ،مفتاح النجاح بدخشی،ص/ ۲۲۰،ما نزل من القرآن فی علی ،ابونعیم اصفہانی تاریخ خطیب بغدادی ج/ ۴ ص/ ۲۹۰،مناقب خوارزمی ص/۸۰ ،الخصائص العلویہ ابو الفتح نطنزی ص/ ۴۳، تذکرہ سبط بن جوزی ص/۱۸ ،فرائد السمطین باب/ ۱۲ سے دیا ہے ۔

[25] شیخین کی تہنیت کے اسناد کو ا  لغدیر ج/ ۱ ص/ ۲۷۰ ،۲۸۳ پر دیکھیں

آٹھویں دلیل:

اگر اس سے حضرت علی علیہ السلام کی دوستی مراد تھی تو اس کے لئے لازم نہیں تھا کہ  جھلسا دینے والی گرمی میں اس مسئلہ کو بیان کیا جاتا، ایک لاکھ سے زیادہ افراد پرمشتمل چلتے ہوئے قافلہ کو روکا جاتا اور تیز دھوپ میںلوگوں کو چٹیل میدان کے تپتے ہوئے پتھروں پر بیٹھا کرمفصل خطبہ دیا جاتا ۔

[26] سورہ حجرات آیہ/۱۰

[27] اس حدیث کو محمد بن ابی بکر ، ابوذر و ابوسعید خدری و دیگر حضرات نے پیغمبر سے نقل کیا ہے (الغدیر جلد۳ )

[28] تفسیر کبیر ج/ ۱ ص/ ۲۰۵

[29] علامہ امینیۺ نے اپنی کتاب الغدیر کی تیسری جلد میںان پچاس کی پچاس حدیثوںکا ذکر ان کے حوالوں کے ساتھ کیا ہے۔

[30] مستد رک حاکم ج/ ۲ ص /۱۵۰مطبع حیدر آباد،اس کے علاوہ اہل سنت کی کم سے کم ۳۰ مشہور کتابوں میں

اس حدیث کو نقل کیاگیا ہے۔